۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا ذوالفقار حسین

حوزه/آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ؛شہادت ایک ایسی خوشبو اور معطر پھول ہے کہ جو  صرف انسانوں کے درمیان میں سے خداوند کے منتخب بندگان کو  نصیب ہوتی ہے اور صرف انہیں کے مشام ان کو سونگھ سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | انسان کی زندگی کے پیچ وخم ،نشیب و فراز کے ہر مراحل کو طے کرنے کے لئے تکامل کی بلند  وادیوں  سے گزرنا پڑتا ہے تا کہ  خدا کی رضا کو حاصل کیا جا سکے لقاء اللہ تک پہنچنے میں بہت سی راہیں پائی جاتی ہے ان میں سب سے بہتر راہ کا نام ،اپنی جان  کو اللہ کی راہ میں قربان کردینا ہے  انسان کی نظر میں جان سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے  جب وہ اپنی شہ رگ کو خدا کے سپرد کردیتا ہے تو  خدا بھی بہت اچھا خریدار ہے وہ  اس کے عوض میں اس کو  بلا فاصلہ جنت کی پر ثمر نعمتیں عطا کرتا ہے یہ اس شہادت کی بنا پرہے  جو اس نے اللہ کی راہ میں دی ہے ۔
حقیقت شہادت  
شہادت ایک ایسی خوشبو اور معطر پھول ہے کہ جو  صرف انسانوں کے درمیان میں سے خداوند کے منتخب بندگان کو  نصیب ہوتی ہے اور صرف انہیں کے مشام ان کو سونگھ سکتے ہیں ۔(آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا پولس کے شہداء کے خاندان سے  ملاقات اور ان سے خطاب 04/07 /1380 شمسی )www.khamenei.ir))
ہم جس شہادت کو مقدس شریعت میں جانتے ہیں اورہمیں  روایات ،قرآنی آیات جس کے بارے  میں بتاتی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک ایسے مقدس مقصد کی راہ کو اپنائے کہ جو واجب یا پسندیدہ  ہے اور اس راہ میں جان کی بازی لگا دے یہ اسلامی صحیح شہادت  ہے ۔(نماز جمعہ کے خطبات عاشورا1416ق) www.khamenei.ir))
قرآن کریم کی مختلف تعابیر شہادت کے سلسلے میں 
         قرآن میں شہادت کے سلسلے میں  ایک مخصوص تعبیر آئی  ہے کہ خدا کی راہ میں جان دے دینا ایک  طرح کا مرنا نہیں ہے
(وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ في‏ سَبيلِ‏ اللَّهِ‏ أَمْواتٌ بَلْ أَحْياءٌ وَ لكِنْ لا تَشْعُرُون‏) ( بقرہ / 154 ) 
اس آیت کے سلسلے میں صاحب تفسیر نمونہ لکھتے ہیں :اگر چہ یہ آیت شہداء بدر کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن جس مومن کی بھی موت راہ خدا میں ہو جائے وہ بھی شہادت پر فائز ہوتا ہے اور جو بھی خدا کی راہ میں جس زمانے میں بھی شہید ہوجائے جس طرح ہمارے ائمہ : وغیرہ ۔۔۔ 
( تفسیر نمونہ ، ج2 ، 251 )  یا آل عمران کی مشہور آیت جو شہدا ء کو زندہ بتا رہی ہے اور وہ اللہ کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔
( وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلُوا في‏ سَبيلِ‏ اللَّهِ‏ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون‏) (آل عمران/ 169) 
( أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرينَ )
(سورۂ آل عمران ، 144)  
 خدا کی راہ میں جان دے دینا معمولی موت کے  برابر نہیں ہے الہی معیار اور دینی ،قرآنی نطقہ نظر سے شہادت ایک الگ گرانبہا مفہوم و معنی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ الہی عطیہ  جس کے شامل حال ہوگیا اور خدا کی راہ میں شہید ہو گیا ، یہ خو د ایک طرح کی خداکی شکر گذاری ہے۔( بعض شہداء کے خاندان سے خطاب کرتے ہوئے 05/07/1377شمسی) (www.khamenei.ir)
بہترین سرمایہ 
شہادت کا معنی یہ ہے کہ ایک انسان اپنی سب سے بہترین اور سب سے محبوب  دنیوی سرمایہ کو ایک ایسے عظیم عمل پر نثار کردے جس کا وہ معتقد ہے کہ جس کا  زندہ رہنا اور   ثمر امید بشریت کے لئے فائدہ مند ہے ۔(بعض دانشوران شہداء کے سمینار کی مناسبت سے پیام15/10/1377 شمسی)( www.khamenei.ir)
 شہادت کا ہدف 
شہید ، یعنی ایک انسان جوعظیم معنوی راہ میں جان دیدے اور اپنی جان کو - کہ جو ہر انسان کا اصلی سرمایہ ہے -الہی ہدف و مقصد کے لئے نچھاور کر دے اور خداوند متعال بھی اس ایثاراور عظیم قربانی کے نتیجہ میں ، اس کے وجود ،یاد اور فکر کو نسلوں تک  باقی رکھتا ہے اور اس کا ہدف  زندہ باقی رہتا ہے یہ ،خدا کی راہ میں جان دینے کی خاصیت ہے وہ لوگ جو خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں زندہ ہیں ان کے جسم زندہ نہیں ہیں ؛ لیکن ان کے حقیقی وجود زندہ ہیں ۔( ممتاز شہداء کے فرزندان کے ساتھ ملاقات اور ان کا بیان 25/ 05/1368) (www.khamenei.ir)
 راہ خدا میں شہادت  
عزیزوں! ہرطرح کے مر جانے کو شہادت نہیں کہتے ، بلکہ ایسا مر جانا جو خدا کی راہ میں اخلاص ،شجاعت، محنت کے ساتھ ہو ، خدا کی راہ اس کا نام شہادت ہے شہید وہ ہے جو جہاد کرتا ہے یعنی مشقت کرتا ہے اور شجاعت کو بروئے کار لاتا ہے اور خدا کے لئے قدم کو آ گے بڑھاتا ہے ؛ کیونکہ اگر شجاعت نہ دکھائے تو ،شہادت کی منزل کو طے نہیں کرپائے گا ۔( آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات صدر مملکت اور ان کے وزاء کے ساتھ ، حکومت کے ہفتہ کی مناسبت سے 02/06/ 1378شمسی ) (www.khamenei.ir)
شہادت کی خصوصیات 
خداوند متعال ، نے شہید کے حق میں ، سب سے بڑا لطف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے ! کوئی بھی شخص دنیا میں باقی رہنے والا نہیں ہے ؛تمام کے تمام موت کے گھاٹ لگنے والے ہیں ۔
مرنا تمام لوگوں کے لئے ہے –خداوند متعال نے ، اس موت کو جو تمام لوگوں کے لئے لکھ دی گئی ہے اور انسان ، مجبور ہے کہ اس دروازہ سے گذرے - لیکن شہید کے لئے اس طرح قرار دیا ہے کہ اسی موت کا مقام بلند و بالا ہو گیا ہے !درحالیکہ معمولی موت کا یہ مقام نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور لطف  ہو سکتا ہے !؟ شہید کی فضیلت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی !؟اس لئے شہید عالم ملکوت اور برزخ میں پروردگار کا شکرگزار ہے ؛ شکرگزار اس لئے ہے کہ اس طرح کا لطف اس کے حق میں کیا گیا ہے شہادت کا لمحہ ، ہر شہید کے میٹھے لمحات میں سے ہے آپ دیکھئے کس قدر بلند و بالا مقام ہے سب سے بہترین مرنا ، شہادت ہے ۔جو انسان خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے سب سے زیادہ ثواب اس کے لئے ہےکہ جو  شہادت کے خوش ذائقہ شربت کو نوش جان کرے ۔( آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای  کا بعض شہداء کے خاندان سے ملاقات اور ان سے خطاب ) (www.khamenei.ir)


نتیجہ 
        قرآن کریم اور روایات کی نظر میں شہادت کا معنی مقدس مقصد کے تحت ہے جو اللہ کی راہ میں جان کو قربان  کردینا ہےیہ ایک الہی عطیہ ہے جو بہت گرانبہا ہے جس کو عطا ہو جاتا ہے وہ پرواز کرنے لگتا ہے اور یہ پرواز الہی ہوتی ہے جو اسے مقام رضا تک پہنچا دیتی ہے در اصل شہادت انسان کو فنا نہیں کرتی بلکہ اس کو بقا دیتی ہے شہید کا جسم نابود  ہوجاتا ہے لیکن  اس کا تذکرہ باقی رہتا ہے وہ موت سے ہمکنارہوتا ہے لیکن موت اس پر طاری نہیں ہوتی وہ موت کا دلدادہ ہوتا ہے اور اس کی موت تمام انسانوں سے بلند و بالا ہوتی ہے  یہ ایک ایسی موت ہے جس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور اس خوش ذائقہ شربت کو نوش کرنے کا مزا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا شہادت آیت ا۔۔العظمی خامنہ ای کی نگاہ میں بھی ایک طرہء امتیاز رکھتی ہے کہ جو اللہ کی راہ میں  دی جاتی ہے  اور اس کی ایک انوکھی کیفیت ہے جس کا ذائقہ صرف شہید کو عطا ہوتا ہے اور یہ جام شہادت پینے کا شرف ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا اس کے لئے توفیق اور ولایت کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے ۔ 

تحریر: مولانا ذوالفقار حسین، مدرسہ امام خمینی،مقیم قم۔ایران 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .